حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا محمد علی، بارہویں صدی ہجری کے مشہور عالم ،فقیہ، اصولی ،فلسفی ،عارف اور شاعر و مورخ تھے اور آپ کاتخلص" حزین لاہیجی"تھا، موصوف کا شمار ہندی طرز شاعری کے آخری شعراء میں ہوتا ہے۔ فلسفہ، کلام، تاریخ اورسیرت وغیرہ جیسے موضوعات پر ان کی تصنیفات اور شعری دیوان موجود ہیں۔
شیخ حزین لاہیجی 27/ربیع الثانی 1103ھ میں ایران کے مشہور شہر"اصفہان" میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد" ابوطالب "جیّد عالم تھے ان کا آبائی وطن آستارا تھا۔شیخ حزین کا سلسلہ نسب ساتویں صدی ہجری کے عارف "شیخ صفی الدین" کے مرشد" شیخ ابراہیم زاہد گیلانی" سے ملتا ہے۔
شیخ علی حزین نے 4 برس کی عمر میں" ملا شاہ محمد شیرازی" کے پاس اپنی تعلیم کا آغاز کیا،"ملا حسین قاری" سے تجوید و قرائت قرآن کے فنون سیکھے اور شرح جامی بر کافیہ، ، شرح مطالع اور من لا یحضرہ الفقیہ جیسے دروس اپنے والد سے پڑھے، اسی دوران ان کے اندر ملکہ شاعری پروان چڑھا، حزین نے اپنے والد سے سفر کی حالت میں بھی علمی استفادہ کرتے ہوۓ، شرح تجرید اور زبدۃ الاصول پڑھی۔ موصوف نے انجیل مسیحی عالم "آوانوس"سےاور توریت اصفہان کے ایک یہودی عالم "شعیب" سے پڑھی۔ حزین فارس کے شہر" بیضا " میں ایک زرتشتی عالم سے آشنا ہوئے اور ان سے زرتشتیوں کے بنیادی عقائد کی تعلیم حاصل کی۔
محمد علی حزین اجتہاد کے درجے پر فائز تھے اور متعدد علماء نے انہیں اجازہ اجتہاد سے نوازا تھا آپ کے قلمی آثار سے آپ کی علمی استعداد کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کتنے فصیح و بلیغ تھے ،موصوف فصیح وبلیغ ہونے کے ساتھ ساتھ طبیب ،متکلم، فلسفی ،اصولی، محدث ،مفسر اسکے علاوہ علم ،ریاضیات ،علم نجوم،اور علم رجال و غیرہ میں میں ماہر تھے۔
سنہ1123 ہجری میں آپ کے والدین کا انتقال ہوگیا جس کے بعد دادی اور چھوٹے بھائیوں کی کفالت آپ ہی کے ذمہ آ گئی۔ اصفہان پر افغانیوں کے حملے سے دادی اور دو بھائیوں کا انتقال ہو گیا وہ کتب خانہ جو انہیں ان کے والد سے میراث میں ملا تھا، تہس نہس ہو گیا اور خودبھی شدید بیمار ہو گئے۔
موصوف اس پرآشوب ماحول میں اصفہان سے باہر نکلنےمیں کامیاب ہو گئے ، پہلے تو " خوانسار" اور اس کے بعد "خرم آباد" پہنچے، خرم آباد میں رہتے ہوۓانہوں نے شرح اشارات، کافی اور تفسیر بیضاوی کی تدریس کی۔ اس کے بعد "ہمدان" کی طرف روانہ ہوئے اور شوشتر و ہویزہ کے راستہ بصرہ گئے حج کا ارادہ کیا لیکن بیمار ی کی وجہ سے ایران واپس آ گئے، اس کے بعدکرمان شاہ اور تویسرکان کے راستہ نجف اشرف چلے گئے اور تین سال وہاں گزارنے کےبعد ایران واپس آئے ،نجف سے واپسی پر پہلے تہران پھر اصفہان گئے اور وہاں6/ مہینہ تک قیام کیا کچھ عرصے بعد شاہ طہماسب کی بدسلوکی کے پیش نظر اصفہان کو خیرباد کہا۔
حزین نے 1145ہجری میں حج کا سفر کیا حج کے بعد دو سال ملتان میں قیام کیا اور پھر دہلی آگئے۔،اس عرصہ میں وہ مستقل بیمار تھے، دہلی میں محمد شاہ نے حکومت کی طرف سے شیخ علی حزین کے لئے وظیفہ مقرر کیا تا کہ وہ آسودہ زندگی گزاریں، کچھ مدت بعدحزین نے دہلی سے بنارس کا رخ کیا اور آخری عمر تک وہیں رہے۔ بنارس کے لوگ ان کابیحد احترام کرتے اور انہیں ایک پاک انسان مانتے تھے۔
ان کے استاد "شیخ خلیل اللہ طالقانی" نے انہیں" حزین" تخلص عطا کرکے ان کی شاعری کو آشکار کیا اور جب ایک محفل میں شیخ علی حزین نے اپنے والد کی موجودگی میں محتشم کاشانی کے اشعار کے جواب میں اپنے اشعار پڑھے تو ان کے والد نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، ان کے اشعار اس زمانہ میں سر زمین ہندوستان پر بہت مشہور تھے اور بہت سے لوگوں نے ان کی حمایت یا نقد میں رسالے تحریر کئے ، جس سے ہندوستان کی عوام میں ان کے اشعار کی اہمیت و مقبولیت کا اندازہ ہو تا ہے، حزین نے اکثر اصناف شعری میں طبع آزمائی کی ،موصوف نے اہلیبیت اطہارؑ کی شان میں متعدد کلام تحریر کۓ ہیں۔
ان کی تالیفات میں 53 کتابیں شامل ہیں جن میں بہت سی کتابیں علمی و دینی موضوعات کا واضح شاہکار ہیں، حزین کی غزلیات کا دیوان تقریبا ً سات ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ ان کی غزلیں ہندوستانی و اصفہانی طرز شاعری کے آخری و برجستہ نمونوں میں سے ہیں۔ ان کی غزل کے اشعار زیادہ ترعاشقانہ و عارفانہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عرفانی اشعار میں عراقی طرز سخن کی خصوصیات کو باقی رکھا ہے، اکثر اوقات عطار، مولوی اور سید قاسم انوار کی پیروی کی ہے۔حسینی سنبھلی، حزین کو قدیم و جدید شاعری کا استاد مانتے تھے۔ شیخ علی حزین نے جہاں فارسی زبان میں اشعار کہے وہیں عربی زبان میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔
حزین نے خمسہ نظامی کی مانند پانچ دیوان نظم کۓ ، ان کا پہلا شعری مجموعہ مثنوی ساقی نامہ پر مشتمل ہے جس میں ایک ہزار اشعار ہیں، دوسرا مجموعہ دیوان تذکرۃ العاشقین ہےجس میں دس ہزار ابیات ہیں، تیسرا مجموعہ تقریباً چار ہزار بیت پر مشتمل ہے، چوتھے دیوان میں 1200 اشعار ہیں اور اس میں قصائد، غزلیات، رباعیات، قطعات اور چمن و انجمن،خرابات ، مطمح الانظار، فرہنگ نامہ اور
صفیر دل جیسی مثنویات شامل ہیں۔ پانچواں دیوان، ہندوستان میں اپنے قیام کے دوران تدوین کیا جس کی طرف فقط مقدمہ تذکرہ المعاصرین میں اشارہ کیا گیا ہے، محمد علی حزین کی منظوم تصنیفات میں شرح تجرید،تاریخ ایران و ہند اور تاریخ حزین قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سارے سفر کئے اور آخر میں شہر بنارس میں زندگی بسر کی۔ آخر کار یہ علم و عمل کا درخشاں آفتاب 11/ جمادی الاول 1180ہجری میں ہندوستان کے شہر "بنارس" کی سرزمین پر غروب ہوگیا اور مؤمنین کی کثیر تعداد کے ساتھ درگاہ فاطمان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کا مقبرہ ہندوستان کےلوگوں کی زیارت گاہ بنا ہواہے۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص199، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء۔
ویڈیو دیکھیں: